14-Apr-2022 لیکھنی کی کہانی -منزل عشق قسط 25
منزل عشق قسط 25
"ہانیہ بیٹا۔۔۔"
"جی مما۔۔۔"
زرش کے بلانے پر ہانیہ اس کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔زرش نے مسکرا کر اپنی پیاری بیٹی کا چہرہ چوما تھا۔
"ہانیہ انس کی بہن نے ہم سے تمہیں انس کے لیے مانگا ہے۔تمہاری کیا مرضی ہے بیٹا؟"
زرش کے سوال پر ہانیہ نے شرما کر سر جھکا لیا۔
"جیسے آپ کی اور بابا کی مرضی مما۔"
زرش نے مسکرا کر اسے دیکھا۔
"تو پھر اگلے مہینے ہی تم دونوں کا نکاح کر دیں؟رخصتی بعد میں ہو جائے گی۔۔"
ہانیہ نے پھر سے ہاں میں سر ہلا کر ہامی بھری جبکہ زرش بھی اپنی بیٹی کے لیے بہت زیادہ خوش تھی کیونکہ وہ اس کے جذبات سے بہت اچھی طرح واقف تھی۔
"ویسے مجھے پتا ہے کہ تم اوپر سے ہی شرما شرما کر ہماری ہاں میں ہاں ملا رہی ہو۔۔۔اندر تو تم ابھی بھنگڑے ڈال رہی ہوگی۔۔۔"
زرش کے شرارت سے کہنے پر ہانیہ ہنسنے لگی۔
"میری پیاری مما آپ کہیں تو میں آپ کو لائیو بھنگڑا ڈال کر دیکھا دیتی ہوں۔۔۔"
ہانیہ نے اسکے گلے میں باہیں ڈالتے ہوئے کہا۔
"بس میں تو یہی چاہتی ہوں کہ تم ہمیشہ یوں ہی خوش رہو اور میری وانیا بھی پھر سے مسکرانے لگے۔۔۔"
وانیا کے ذکر پر ہی زرش افسردہ ہو چکی تھی۔وہ پھر سے اپنی بیٹی کو ہنستے مسکراتے دیکھنا چاہتی تھی۔
"مما آپ فکر مت کریں بابا نے مجھے یقین دلایا ہے کہ وہ سب ٹھیک کر دیں گے۔"
"ان شاءاللہ۔۔۔"
زرش نے دل سے کہا اور آنکھیں موند کر خدا سے اپنی بیٹی کی خوشیاں مانگی تھیں۔
❤️❤️❤️❤️
وجدان ہانیہ اور وانیہ کے کمرے میں آیا تو اسے بس وہاں وانیا ملی جو بیڈ پر بیٹھی اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی۔
"بابا کی جان۔۔۔"
وجدان نے اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے پکارا تو وانیہ اسکے سینے پر سر رکھ کر آنکھیں موند گئی۔
"کیا بات ہے میرا بچہ آپ مجھ سے بھی بات نہیں کرو گی؟"
وجدان نے ٹھوڈی سے پکڑ کر اس کا چہرہ اوپر کیا۔وانیا کی آنکھیں نم تھیں۔
"وانیا بیٹا ایسی کونسی بات ہے جو آپ مجھ سے بھی نہیں بانٹ رہی مجھے بتاؤ نا میں سب ٹھیک کر دوں گا۔۔۔۔"
وجدان نے اس سے ہمیشہ والی بات کہی جو پچھلے ڈیڑھ مہینے سے وہ تقریبا روز ہی کہتا تھا لیکن آج بھی روز کی طرح اسے کوئی جواب نہیں ملا۔
"وانیہ میں نے آپ کا رشتہ اپنے دوست کے بیٹے میڈی سے طے کیا ہے۔۔۔"
وجدان کے فیصلہ سنانے پر وانیا نے بس اپنی شکوہ کناں نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا۔
"وہ بہت اچھا لڑکا ہے وانیہ اور تمہارا بہت زیادہ خیال رکھے گا ۔۔۔۔"
وجدان نے اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا لیکن پھر اس کی مسلسل خاموشی کو دیکھ کر گہرا سانس لیتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔
"مجھے یہ شادی نہیں کرنی بابا۔۔۔"
ابھی اس نے نے واپسی کیلئے چند قدم ہی اٹھائے تھے جب اس کے کانوں میں وانیا کی آواز پڑی۔
"مجھے کسی سے بھی شادی نہیں کرنی کبھی بھی نہیں۔۔۔"
وانیا کی آواز میں بہت زیادہ دکھ اور درد تھا۔وجدان واپس آیا اور اپنی بیٹی کے ہاتھ تھام لیے۔
"اور کیا میں وجہ جان سکتا ہوں۔۔۔۔؟"
وجدان کے سوال پر وانیا اپنا سر جھکا چکی تھی۔
"ممم۔۔۔۔مجھے بس کسی سے شادی نہیں کرنی بابا کبھی بھی نہیں کرنی۔۔۔۔"
وانیا نے بہت زیادہ روتے ہوئے کہا اور اسے یوں روتا دیکھ پہلے تو وجدان خاموش رہا پھر اس نے گہرا سانس لیا۔
"ٹھیک ہے میں انہیں منع کر دوں گا لیکن اسکے بعد کیا وانیا؟کیا تم یہ گوارا کرو گی کہ جس نے مجھے اپنا سب سے اچھا دوست مان کر مجھ سے یہ مانگ کی اس شخص سامنے تمہارے باپ کا مان چکناچور ہو جائے۔کیونکہ میرے انکار کرنے سے ایسا ہی ہوگا۔۔۔۔"
وانیہ فوراً انکار میں سر ہلانے لگی۔
"ن۔۔۔نہیں بابا ممم۔۔۔۔میں ایسا نہیں چاہتی۔۔۔میں نہیں چاہتی کہ میری وجہ سے آپ کو شرمندگی ہو۔۔۔"
وانیہ کے بہت زیادہ رونے پر وجدان نے اسے اپنے سینے سے لگایا اور اس کے بالوں کو نرمی سے سہلانے لگا۔
"تو پھر مجھ پر یقین کرو بیٹا میں کبھی بھی تمہارے لئے کوئی غلط فیصلہ نہیں کروں گا۔۔۔میڈی بہت اچھا ہے بہت خیال رکھے گا تمہارا۔۔۔۔"
وجدان نے اسکا چہرہ اٹھا کر اوپر کیا۔
"کرو گی نا مجھ پر بھروسہ؟"
اپنے باپ سے اتنی امید سے پوچھنے پر نہ چاہتے ہوئے بھی وانیہ اسے انکار نہیں کر پائی۔اچھی بیٹیوں کی طرح اس نے خاموشی سے سر جھکا کر اپنی مرضی کا اظہار کیا۔
"آپ پر خود سے بھی زیادہ بھروسہ ہے بابا آپ کی خوشی کے لئے میں کچھ بھی کر سکتی ہوں۔۔۔۔"
وانیا کے ایسا کہنے پر وجدان نے محبت سے اس کے سر پر اپنا ہاتھ رکھا اور پھر وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔اس کے جاتے ہی وانیا بستر پر گر کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
"وانی۔۔۔۔؟"
اسے یوں روتا دیکھا ہانیہ کمرے میں آئی اور اسے اٹھا کر اپنے ساتھ لگا لیا۔
"کیا ہو گیا ہے وانی کچھ تو کہو میری جان۔۔۔"
ہانیہ نے بہت پیار سے کہا تو وانیا اس سے جدا ہوئی۔
"بابا میری شادی کرنا چاہتے ہیں اپنے دوست کے بیٹے سے۔۔۔"
"ہاں تو اس میں مسئلہ کیا ہے؟"
ہانیہ نے حیرت سے پوچھا ۔
"تتت۔۔۔تم جانتی ہو ہانی میں کیسے شادی کر سکتی ہوں میرا ان کے ساتھ نکاح۔۔۔"
"میری جان جہاں تک تم نے مجھے بتایا ہے نا تمہارے اور اس کے درمیان ایسا کوئی تعلق نہیں تھا۔اس لیے تم پر کوئی عدت واجب نہیں ہوتی بلکل تم کسی سے بھی نکاح کر سکتی ہو۔"
ہانیہ نے اسے بتایا لیکن وانیا اب پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔کسی اور سے نکاح کر کے لیے پہلے اسے دل سے نکالنا ہوتا جو وانیا چاہ کر بھی نہیں کر پا رہی تھی۔
"ایک پل کے لئے بھی اس شخص کے بارے میں مت سوچو وہ غدار تمہاری محبتوں کے قابل نہیں۔۔۔۔"
ہانیہ نے اسے کندھوں سے تھام کر سمجھایا۔
"جانتی ہوں ہانی لیکن یہ میرے بس میں نہیں چاہ کر بھی میں اسے اپنے دل سے نہیں نکال پا رہی تم ہی بتاؤ میں کیا کروں؟"
وانیہ کے پھوٹ کر رونے پر ہانیہ کچھ پل بے بسی سے اسے دیکھتی رہی۔
"بس تم بابا پر یقین کرو وانیہ وہ ہم سے بھی زیادہ پیار کرتے ہیں ہم سے وہ سب ٹھیک کر دیں گے۔۔۔"
ہانیہ نے اسکا ہاتھ تھام کر کہا اور وہاں سے اٹھ کر چلی گئی لیکن وانیہ اسکے جانے کے بعد بھی روتی رہی تھی۔
❤️❤️❤️❤️
نکاح کی تیاریاں زور و شور ہر تھیں۔اتنی جلدی اتنا انتظام کرنا کہاں آسان تھا۔عثمان بھی حمنہ کے ساتھ وہاں آ چکا تھا۔سالار اور جنت بھی انکے ہمراہ تھے۔
سب لوگ غموں کے بعد آنے والی ان خوشیوں سے بہت خوش تھے لیکن جسکی وہ خوشیاں تھیں اسے تو کسی چیز سے سروکار ہی نہیں تھا۔
آج ہی جنرل شہیر اور انکی اہلیہ نکاح کا جوڑا لے کر انکے گھر آئے تھے۔آئمہ بیگم تو وانیا کے صدقے واری جا رہی تھیں اور دور کھڑا میڈی مسکراتی نگاہوں سے وانیا کو دیکھ رہا تھا۔
وانیا نے نگاہیں اٹھا کر اپنے ہونے والے شوہر کو دیکھا جو آج بلیک پینٹ پر بلیک شرٹ پہنے اور بازوؤں کو کوہنی تک فولڈ کیے بہت ہی زیادہ خوبرو لگ رہا تھا۔کوئی بھی لڑکی اس عربی شہزادے جیسا حسن رکھنے والے کا مقدر ہونے پر رشک کرتی۔
تم صرف میری ہو افغان جلیبی،یہ پری بس اپنے جن کی ہے۔۔۔ہمیشہ یاد رکھنا یہ بات۔۔۔۔
راگا کے الفاظ وانیا کے کانوں میں پڑے تو اس نے ضبط سے اپنی آنکھیں موند لیں۔
"ایکسیوز می۔۔۔"
فون بجنے پر میڈی نے آہستہ سے کہا اور وہاں سے باہر چلا گیا کچھ سوچ کر وانیہ بھی وہاں سے اٹھی اور زرش کو واش روم جانے کا کہہ کر میڈی کے پیچھے آئی تھی۔
"سنیے۔۔۔"
وانیا کی آواز پر میڈی فون بند کر کے مڑا اور مسکراتے ہوئے اسے دیکھنے لگا۔
"جی سنائیے میرے تو کان تڑپ رہے ہیں آپ کی سننے کے لیے۔۔۔"
میڈی نے سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے کہا تو وانیہ کنفیوز ہو کر اپنی انگلیاں چٹخانے لگی۔
"مم۔۔۔ مجھے آپ سے شادی نہیں کرنی۔۔۔۔"
وانیا نے سر جھکا کر سہمتے ہوئے کہا لیکن دوسری جانب سے کوئی جواب نہیں آیا تو اسے کچھ ہمت ملی۔
"آپ۔۔۔۔آپ میرے بابا کو اس رشتے سے منع کر دیں۔۔۔۔آپ ان سے کہیں کہ آپ مجھ سے شادی نہیں کرنا چاہتے۔۔۔۔مم۔۔۔میں اپنے بابا کو منع کر کے ان کا مان نہیں توڑ سکتی۔"
وانیا کی پوری بات سننے کے بعد وہ لب صرف مسکرائے۔
"ٹھیک ہے میں منع کر دیتا ہوں۔۔۔۔"
وانیا نے نگاہیں اٹھا کر اس شخص کو دیکھا جو اب ایک سگریٹ سلگا کر ہونٹوں کے ساتھ لگا چکا تھا۔
"لیکن ایک شرط پر۔۔۔"
"کیسی شرط؟"
وانیا پل بھر میں گھبرائی۔
"تمہیں مجھے اس انکار کی وجہ بتانی ہو گی وہ بھی بلکل سچ۔۔۔"
اب وانیا کا سر مکمل طور پر جھک چکا تھا اور پلکیں بھی نم تھیں۔
"وو۔۔۔۔وہ میں۔۔۔"
"دیکھو اگر سچ بتاؤ گی تو ہی میں اس رشتے سے انکار کروں گا۔"
وانیا کو ہچکچاتا دیکھ وہ پھر سے بول اٹھا تو وانیا کی بے بسی کی انتہا ہو گئی۔
"مم ۔۔۔۔میں کسی اور سے پیار کرتی ہوں۔۔۔"
وانیا نے روتے ہوئے اسے بتایا۔
"نام کیا ہے اسکا؟"
ایک اور سوال وانیا کی جان کا وبال بنا۔
"یہ میں نہیں بتاؤں گی بس اتنا ہی کہوں گی کہ میں ان سے بہت زیادہ محبت کرتی ہوں۔صرف وہ ہی میرے جسم و جان کے مالک ہیں۔۔۔۔میرا وجود انکی امانت ہے اور میرے مرنے تک بس انکی امانت رہے گا ۔۔۔۔"
وانیا نے غصے سے اپنی مٹھیاں بھینچ کر کہا۔اسکی آنکھوں میں ایک آگ تھی جسے دیکھ کر میڈی مسکرایا۔
"انٹرسٹنگ۔۔۔!"
میڈی نے ایک ادا سے وہ سگریٹ اپنے ہونٹوں سے ہٹائی اور پیر کے نیچے دے کر کچل دی۔
"اتنی شدت والی محبت ہے آپ کو جس سے وہ تو بہت خوش نصیب ہو گا۔۔۔۔"
اس نے وانیا کے قریب ہوتے ہوئے کہا جبکہ وانیا اس سے دور ہوئی اور اپنا سر پھر سے جھکا گئی۔
"اب آپ اس رشتے سے منع کر دیں گے ناں؟"
وانیا نے بہت امید سے پوچھا تو وہ مغرور حسن کا شہزادہ کچھ دیر کے لیے سوچ میں پڑھ گیا۔
"کر دوں گا۔۔۔"
"شکریہ۔۔۔۔"
وانیا نے بس اتنا ہی کہا اور وہاں سے چلی گئی جبکہ ان دو آنکھوں نے اسکے نظروں سے اوجھل ہونے تک اسکا پیچھا کیا تھا۔
❤️❤️❤️❤️
عثمان سالار کے پاس اسکے آفس آیا۔وہ کافی زیادہ پریشان دیکھائی دے رہا تھا۔
"کیا ہوا بابا سب ٹھیک ہے ناں؟"
عثمان نے ہاں میں سر ہلایا۔
"سب ٹھیک ہے بیٹا بس یہ میڈیا والے اور انکے سوالات۔۔۔اتنے سال گزر گئے سالار لیکن آج بھی وہ ایک واقع میرے سامنے ہزار سوالوں کی شکل میں کھڑا ہوتا ہے۔"
سالار نے عثمان کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔
"فکر مت کریں بابا میں سب ٹھیک کر دوں گا بس کچھ وقت پھر وہ قاتل خود آپکی بے گناہی ثابت کرے گا وعدہ ہے میرا۔۔۔"
عثمان نے مسکرا کر اپنے بیٹے کو دیکھا۔
"سالار تم کہتے ہو تمہیں خادم پر شک ہے لیکن اگر یہ سب خادم نے کروایا ہوتا تو وہ عشال اور سعد کو کیوں ٹارگٹ کرتا وہ انکی جگہ مجھے بھی تو مروا سکتا تھا۔"
عثمان نے اپنا خدشہ ظاہر کیا۔
"فکر مت کریں بابا بغیر ثبوت کے میں اس شخص پر کوئی سوال نہیں اٹھاؤں گا آجکل عوام کا فیورٹ بنا ہوا ہے اور اس پر کیچڑ اچھال کر میرا اپنا دامن گندا ہو گا۔۔۔"
عثمان نے ہاں میں سر ہلایا۔سالار واقعی میں ایک عقلمند سیاست دان تھا۔
"تم نے کیا سوچ رکھا ہے سالار؟"
عثمان نے اسے طائرانہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کا بیٹا کسی مصیبت میں پھنسے۔
"وقت آنے پر بتاؤں گا ڈیڈ ابھی بس اتنا کہوں گا کہ مجھ پر بھروسہ رکھیں اور فلحال گھر چلتے ہیں کیونکہ آپ کی بہو کو تین بجے ہانیہ وانیہ کے نکاح کی شاپنگ کروانی ہے۔اسکا ناراض ہونا افورڈ نہیں کر سکتا۔"
سالار کی بات پر عثمان قہقہ لگا کر ہنس دیا۔
"یہ تو سچ کہا تم نے سالار عورت کا ناراض ہونا بہت ہی مہنگا پڑتا ہے اس لیے اس سے پہلے کہ تمہاری مما ناراض ہو جائیں گھر چلتے ہیں۔"
سالار نے بھی مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا اور وہ دونوں اٹھ کر گھر کی جانب چل دیے۔
❤️❤️❤️❤️
"چچچچ۔۔۔چلو ایمان یہ کھانا کھاؤ پپپ۔۔۔پورا۔۔۔"
معراج اپنے ہاتھ سے نوالہ ایمان کی جانب بڑھاتے ہوئے بولا جو برے برے منہ بنا رہی تھی۔
"نہیں بس ملنگ فل ہو گئی ہوں اب۔۔۔"
ایمان نے اسکا ہاتھ پیچھے کرتے ہوئے کہا۔اج کل وہ بہت خوش رہنے لگی تھی وجہ بس معراج کا اسکے پاس ہونا اور عرفان کا گھر سے باہر ہونا تھا۔نہ جانے عرفان کہاں تھا لیکن جہاں بھی تھا ایمان کے لیے اچھا ہی تھا۔
"ملنگ تمہیں پتہ ہے نیکسٹ ویک میرا برتھ ڈے ہے ۔۔۔ویسے تو مجھے کبھی کسی نے برتھڈے پر گفٹ نہیں دیا لیکن تم مجھے کیا دو گے؟"
ایمان ٹھوڈی کے نیچے ہاتھ رکھے دلچسپی سے پوچھ رہی تھی۔
"کک ۔۔۔کیا چاہیے تمہیں؟"
معراج کے پوچھنے پر ایمان سوچ کے عالم میں ڈوب گئی۔
"ٹیڈی بیئر اتنا بڑا سا کہ میں حیران رہ جاؤں۔۔۔"
معراج نے ہاتھ اٹھا کر اسکی جانب دیکھا۔
"پپ ۔۔۔پاگل میں نہیں للل ۔۔۔لا رہا کوئی ٹیڈی بب۔۔۔بئیر۔۔۔"
ایمان نے فوراً ہی اپنا منہ بسورا پچھلے ایک مہینے سے اپنے ملنگ کو لاڈ دیکھا دیکھا کر وہ اسکی محبت اور توجہ کی بہت عادی ہو چکی تھی۔معراج کی محبت نے اس احساس کمتری کی شکار لڑکی کو لاڈلی سی شہزادی بنا دیا تھا۔
"معراج بیٹا آپ کے ماموں آپ سے ملنے آئے ہیں۔۔۔"
اس سے پہلے کہ ایمان معراج کو کچھ کہتی وہ دونوں ہی ملازم کی آواز پر چونکے۔
"آآآ۔۔۔آتا ہوں۔۔۔"
معراج اتنا کہہ کر اٹھا اور باہر کی جانب بڑھا لیکن ایمان بھاگ کر اسکی کمر سے چپک گئی۔معراج ٹھٹھک کر رک گیا۔
"تم مجھے چھوڑ کر تو نہیں جا رہے نا ملنگ پلیز مجھے مت چھوڑ کر جانا۔۔۔اگر ماموں کے ساتھ جانا ہے تو مجھے بھی لے جاؤ لیکن مجھے مت چھوڑنا۔"
خود پر مظبوط ہوتی ایمان کی پکڑ اور اپنی کمر پر اسکے آنسو محسوس کر کے معراج نے اسے اپنے سامنے کیا اور بہت نرمی سے اسکے آنسو پونچھے۔۔
"کک۔۔۔کبھی نہیں۔۔۔کبھی نہیں چھوڑوں گگ۔۔۔گا تمہیں۔۔۔"
معراج نے نرمی سے اپنے ہونٹ اسکے ماتھے پر رکھے اور باہر ہال میں موجود وجدان کے پاس آیا جس نے معراج کے وہاں آتے ہی اسے اپنے گلے سے لگایا۔
"جانتا ہوں کہ تم ناراض ہو مجھ سے بیٹا لیکن یقین کرو تم سچ سے واقف نہیں ہو۔۔۔"
وجدان نے اسے کندھوں سے تھام کر کہا تو معراج نے بے رخی سے اسکے ہاتھ اپنے کندھے سے ہٹا دیے۔
"سسس۔۔۔سچ سے ابھی تو ووو۔۔۔واقف ہوا ہوں۔۔۔۔اتنے عرصے سے آآآ۔۔۔آپ نے اور بڑے بابا نے ااا۔۔۔اندھیرے میں رکھا تھا۔۔۔آآآ۔۔۔آپ چلے جائیں یہاں سے ماموں۔۔۔"
معراج کی بات ہر وجدان نے آنکھیں موند کر گہرا سانس لیا۔
"ٹھیک ہے بیٹا چلا جاؤں گا بس اتنا چاہتا ہوں کہ تم اپنی بہنوں کے نکاح میں شرکت کرو معراج۔اگر تمہارے دل میں میرے لیے تھوڑی سی بھی عزت ہے تو تم ضرور آؤ گے۔۔۔"
وجدان کی بات پر معراج کچھ دیر خاموش رہا پھر آہستہ سے بولا۔
"مم۔۔۔میں نہیں آؤں گا۔۔۔"
اتنا کہہ کر معراج وہاں سے جا چکا تھا اور وجدان بہت دیر وہیں کھڑا رہا پھر وہ بھی وہاں سے چلا گیا جبکہ سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر یہ منظر دیکھتا خادم شان سے مسکرایا۔
"تم نے تو کام آسان کر دیا بچے۔۔۔۔تمہاری اپنوں سے دوری بہت فائدے مند ثابت ہو گی میرے لیے۔بس ایک ہفتہ جی لو کھل کر پھر تمہاری لاش بھی کسی کو نہیں ملے گی۔"
خادم نے خباثت سے کہا پھر مسکراتے ہوئے واپس کمرے میں چلا گیا۔اب اسے اپنی سب سے بڑی رکاوٹ سکندر کے بارے میں سوچنا تھا۔
❤️❤️❤️❤️
آخر کار نکاح کا دن بھی آن پہنچا تھا لیکن وانیا مطمئن تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ میڈی نے نکاح سے انکار کر دیا ہو گا۔
زرش مسکراتے ہوئے جنت اور پارلر والی کے ساتھ کمرے میں آئی اور اپنی بیٹیوں کے نکاح کے جوڑے نکال کر بیڈ پر رکھے۔
"ہانیہ وانیہ چلو بیٹا جلدی سے تیار ہو جاؤ دیر ہو جائے گی۔۔۔"
زرش کے ایسا کہنے پر جب وانیہ کی نگاہ اپنے نکاح کے جوڑے پر پڑی تو وہ گھبرا گئی۔
"مم۔۔۔۔مجھے یہ پہن کر تیار ہونا ہے کیا؟"
زرش نے پاس آ کر اپنی معصوم بیٹی کا ماتھا چوما اور ہاں میں سر ہلایا۔
"اب تمہیں اپنی بہن سے کم تو نہیں لگنا نا ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ وانیا ہانیہ سے کم پیاری لگے۔۔۔"
زرش کی بات پر وانیا نے سکھ کا سانس لیا اور وہ کپڑے پکڑ کر تبدیل کرنے چلی گئی۔
باہر آئی تو اسکی نظر زرش پر پڑی جو ہانیہ کے لال میکسی نما جوڑے کی کمر سے ڈوریاں بند کر رہی تھی۔
"ارے واہ کر لیا چینج چلو اب آؤ اور تیار ہو جاؤ میں چاہتی ہوں میری دونوں بیٹیاں چاند کا ٹکڑا لگیں۔"
وانیا ایسا نہیں چاہتی تھی لیکن اپنی ماں کی خوشی کو خراب نہیں کرنا چاہتی تھی اس لیے خاموشی سے تیار ہونے لگی۔
وانیا کا جوڑا سفید کرتی اور شرارے پر مشتمل تھا جبکہ ساتھ موجود سرخ دوپٹہ اس حسین جوڑے کو مزید حسین بنا رہا تھا۔
پالر والی نے مہارت سے اسے میک اپ کیا اور بال اونچے جوڑے میں باندھ کر لال دوپٹہ سر پر ڈال کر کمر پر پھینک دیا۔مناسب سی ڈائمنڈ کی جیولری پہنے وانیا سچ میں کوئی چاند کا ٹکڑا کی لگنے لگی تھی۔
"میری جان اتنی پیاری لگ رہی ہو نا کہ بس۔۔۔"
ہانیہ نے اسے آئنے میں دیکھ کر شرارت سے کہا تو وانیہ سر جھکا گئی اسکا دل بہت زیادہ ڈر رہا تھا کہیں ایسا تو نہیں تھا کہ اس شخص نے وانیا کے ساتھ جھوٹ بولا اور اس نے بابا کو نکاح کے لیے منع نہیں کیا تھا۔
یہ سوچ ذہن میں آتے ہی وانیا رونے والی ہو گئی۔
"ہیے روندو شکل مجھے بھی تو دیکھو نا کیسی لگ رہی ہوں؟"
ہانیہ کی آواز پر اس نے نگاہیں اٹھا کر اپنی بہن کو دیکھا تو نظریں پلٹنا ہی بھول گئی۔
لال میکسی میں ملبوس مناسب سے میک اپ اور گڈ کی جیولری پہنے ہانیہ نظر لگ جانے کی حد تک پیاری لگ رہی تھی۔جبکہ اسکا ہیر سٹائل بھی بلکل وانیا جیسا تھا۔
"بہت زیادہ پیاری لگ رہی ہو ہانی۔۔"
وانیا نے آہستہ سے اسکے گلے لگتے ہوئے کہا تبھی وجدان اور زرش کمرے میں داخل ہوئے تو اپنی بیٹیوں کو دلہن بنا دیکھ زرش کی پلکیں نم ہوئی تھیں۔اسکے آنگن میں کھیلنے والی چھوٹی چھوٹی تتلیاں آج اتنی بڑی ہو چکی تھیں۔
وجدان نے آگے بڑھ کر دونوں کو اپنے سینے سے لگایا اور باری باری دونوں کا ماتھا محبت سے چوما۔
"اللہ تم دونوں کو ہمیشہ خوش رکھے میری بیٹیو کبھی کوئی بھی غم تمہارے قریب مت آئے آمین۔۔۔"
باپ کی شفقت پر ان دونوں کی پلکیں نم ہو چکی تھیں۔
"اف بابا بس کریں اموشنل کر کے میک اپ خراب کریں گے ویسے بھی نکاح ہے یہ رونے والا کام رخصتی پر کر لیں گے۔۔۔"
ہانیہ کی بات پر وجدان ہنس دیا اور پھر وانیا کو دیکھا جو بہت زیادہ اضطراب میں لگ رہی تھی۔
"زرش تم ہانیہ کو لے جاؤ وانی کو میں کے آؤں گا۔"
زرش نے ہاں میں سر ہلایا اور ہانیہ کو اپنے ساتھ وہاں سے لے گئی۔وجدان نے وانیہ کا چہرہ تھام کر اوپر کیا۔
"کیا بات ہے بابا کی جان۔۔۔؟"
وجدان کے لہجے میں بہت زیادہ محبت تھی۔
"بابا کیا وہ۔۔۔۔کیا انہوں نے آپ سے بات کی ۔۔۔۔وہ۔۔۔ انہوں نے نکاح کو لے کر کچھ کہا آپ سے۔۔۔۔؟"
وانیا نے گھبراتے ہوئے پوچھا تو وجدان نے ہاں میں سر ہلایا۔
"ہاں میری بات ہوئی تھی میڈی سے تم فکر مت کرو سب تمہاری خوشی کے حساب سے ہی ہو گا یہ وعدہ ہے تمہارے باپ کا ۔۔"
وانیا نے اپنے آنسو پونچھ کر ہاں میں سر ہلایا۔اب وہ اطمینان میں آ چکی تھی۔ وجدان مسکراتے ہوئے اسے اپنے ساتھ لے آیا۔
باہر بہت سے مہمان آ چکے تھے۔وانیا کی نظر ہال میں موجود میڈی پر پڑی تو وہ گھبرا گئی لیکن پھر اس نے خود کو تسلی دی کہ وہ ہانیہ کے نکاح کے لیے آئے ہوں گے۔
"ماشاءاللہ میری بیٹی تو بہت زیادہ پیاری لگ رہی ہے ۔۔۔۔"
آئمہ بیگم نے وانیا کے پاس آ کر کہا تو وانیا ہچکچاتے ہوئے مسکرا دی۔
"میرے خیال سے ہمیں جلد از جلد نکاح کی تقریب شروع کرنی چاہیے۔۔۔"
شایان کی بات پر سب نے متفق ہو کر ہاں میں سر ہلایا اور وہیں لاونج میں موجود صوفوں پر بیٹھ گئے۔وجدان نے میڈی کو دیکھتے ہوئے بات شروع کی۔
"بات یہ ہے کہ میڈی نے کچھ دن پہلے ہی اپنی ایک خواہش کا اظہار کیا تھا میرے سامنے اور اب اسکی خواہش کے مطابق پہلے وانیہ اور میڈی کا نکاح ہو گا۔۔۔۔"
وجدان کی بات پر وانیا کو لگا کہ اسکا دل کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا ہو۔پر شکوہ نم نگاہیں اٹھا کر اس نے سامنے بیٹھے شخص کو دیکھا جو شان سے مسکرا رہا تھا۔
"بابا۔۔۔۔"
وانیا نے گھبرا کر وجدان کو پکارا اور اسکے ساتھ لگی جیسے کہ اس میں چھپنا چاہ رہی ہو۔
"بھروسہ رکھو میری جان۔۔۔"
وجدان نے نرمی سے کہا اور مولوی صاحب کو اشارہ کیا جو پہلے وانیا کے قریب موجود کرسی پر بیٹھے تھے۔
وہ کیا کہہ رہے تھے کیا کر رہے تھے اس وقت سب کچھ وانیا کی سمجھ سے باہر تھا وہ تو بس بت بنی وہاں بیٹھی تھی۔
ته زما مینه یې
تاسو زما جنون یاست
تاسو زما تیاره نړۍ ځلیږئ
تاسو زما یاست
تاسو یوازې زما یاست
راگا کی سرگوشی اسکے کانوں میں گونج رہی تھی۔وہ بھلا کیسے کسی اور کی ہو جاتی جب وہ اپنے تن من کا مالک صرف ایک انسان کو سمجھتی تھی۔
"وانیا مولوی صاحب کچھ پوچھ رہے ہیں آپ سے۔۔۔"
وجدان کی آواز پر وانیا اپنے خیالوں کی دنیا سے باہر آئی اور روتے ہوئے نگاہیں آ کر اس دغا باز شخص کو دیکھا جس نے اس سے جھوٹ بولا تھا۔
"قبول ہے قبول ہے قبول ہے۔۔۔"
وانیا نے ایک بار ہی کہا تو وجدان نے اسکے سامنے نکاح نامہ رکھا جسے دھندلیاتی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے اس نے سائین کیے اور اٹھ کر وہاں سے چلی گئی۔
"وانیا۔۔۔"
وجدان نے اسے پکارا لیکن وہ نہیں رکی بس اپنے کمرے میں آئی اور پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔وہ اپنی محبت سے دغا کر چکی تھی کسی اور کی ہو چکی تھی۔
❤️❤️❤️❤️
کمرے میں آتے ہی وانیا زمین پر بیٹھ کر رونے لگی تھی۔رونے کی وجہ سے اسکے وجود میں ہچکیاں بندھ چکی تھیں لیکن حیرت کی بات تو یہ تھی کہ کوئی بھی اسکے پیچھے نہیں آیا تھا یہاں تک کہ ہانیہ بھی نہیں۔
شاید سب خوشیوں میں مصروف تھے۔لیکن اسکو کیا خوشی ہوتی جسکا دل ہی مر چکا تھا۔
"آآ۔۔۔آپ نے مجھ سے دھوکے سے شادی کی نا۔۔۔۔نہیں معاف کروں گی میں آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی۔۔۔"
وانیا زارو قطار رو رہی تھی۔نفرت ہو رہی تھی اسے اپنی سجاوٹ سے اس لیے ااٹھ کر آئنے کے سامنے آئی۔اپنے کانوں کے نازک بندے اور گلے میں موجود نیکلیس اس نے کھینچ کر اتارا۔ابھی اپنا ہاتھ اس نے دوپٹے کی جانب بڑھایا ہی تھا جب اچانک لائٹ چلی گئی اور کمرے میں مکمل اندھیرا ہو گیا۔
جان تو وانیا کی تب ہوا ہوئی جب کسی نے اسکی کمر کے گرد اپنا ہاتھ لپیٹا اور کھینچ کر اسکی کمر اپنے چوڑے سینے سے لگائی۔
"ککک۔۔۔۔کون؟"
وانیا نے گھبرا کر سوال کیا تو اندھیرے میں سانسوں کی تپش اسے اپنے کان کے پاس محسوس ہوئی۔
"میرے سوا اور کس کی اتنی جرات ہے کہ میری ملکیت کو چھوئے افغان جلیبی ہاتھ نہ کاٹ دوں اس گستاخ کے۔۔۔۔"
وہ آواز اپنے کانوں سے ٹکراتے ہی وانیا کا پورا وجود پتھر کا ہوا۔وانیہ وہ آواز لاکھوں آوازوں میں بھی پہچان سکتی تھی۔
"رر۔۔۔راگا۔۔۔"
پہلی بار وانیہ نے اسے اس نام سے پکارا۔
"ہاں لخت جگر تمہارا راگا۔۔۔تمہارا کوہ قراقرم کا جن تمہیں واپس لینے آ گیا ہے میری پری اب پھر سے اسکی قید میں جانے کے لیے تیار رہو۔۔۔"
اتنا کہہ کر راگا نے اسکی گردن کے پاس موجود مخصوص نس کو دبایا تو وہ بے ہوش ہو کر اسکی باہوں میں جھول گئی۔اپنی پری ہو پھر سے باہوں میں کے کر راگا کے لب شان سے مسکرائے۔
❤️❤️❤️❤️